نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا والی سرکار نہایت خوبی کے ساتھ دوایجنڈے پر کام کر رہی ہے پہلا ایجنڈا تو یہ ہے کہ کسی بھی صورت سے اس ملک کے تمام سرکاری اداروں کو پرائیوٹ کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کر دینا ہے جس کے لئے انہوں نے ملک کے کئی سیٹھوں سے ایڈوانس بھی پکڑ رکھاہے اور سود کے طورپر ان کو ہرطرح کاجائز ناجائز ٹھیکہ دے کر خزانے کو خالی بھی کر تے رہتے ہیں۔ اور دوسرا ایجنڈا عام پبلک کے لئے ہے جس کی بنیادمیں مذہب ہے۔ ان کی پوری نظرآنے والی سیاست میں جومذہب کاپینٹ آپ کونظرآتا ہے وہ صرف اور صرف دکھا وا ہے۔ مذہب کانہایت بے شرمی کے ساتھ کوئی استعمال کر تا ہے تو وہ یہی لوگ ہیں ورنہ آپ خود دیکھیں کہ مندر سے اٹھ کر جب سیاست میں آنے کے باوجود ایک شخص خود کو یوگی کہے اور کہلوائے ۔ بھگوارنگ کا جو مطلب ہو تاہے اس کے ٹھیک الٹ کام کرے اور زوردے کرکہے کہ مجھے یو گی ہی کہوتو اسے مذہب کیمارکیٹنگ نہیں تواور کیا کہیں گے؟ ہماری کئی یوگیوں سے بات ہوئی انہوں نے صاف لفظوں میں کہاکہ بھگوا لباس زیب تن کرنے کے بعد کوئی بھی شخص اس دنیا کانہیں رہ جاتا ۔ وہ دنیا کی محبت کو چھوڑ کر صرف اور صرف اپنی روحانی دنیا میں رہنے لگتا ہے۔ اس کے منہ سے دنیا کے کسی بھی جاندار کے خلاف آواز نہیں نکل سکتی۔ اپنے آرام وآسائش کو وہ پوری طرح ترک کردیتا ہے اور عام لوگوں کے سامنے اگرکبھی زبان کھولتا بھی ہے تو وہ انہیں نیکی کرنے کی تلقین کر تاہے اس کی ذات سے اس کے عمل سے ایک چیونٹی کو بھی تکلیف ہو تو اس کے جوگی ہونے پر شک کرنا چاہئے لیکن ہم دیکھ کیارہاہے؟ درجن بھر سے زیادہ یوگیوں نے بھگواپہن کر پورے ملک میں دہشت کاماحول قائم کر رکھا ہے اور ہم اسے دیکھ بھی رہے ہیں اور ان کے آ گے سر بھی جھکا رہے ہیں۔ حکومت نے اس طرح ملک کی اکثریت کو مسحور کیاہوا ہے کہ انہیں نظر ہی نہیں آ رہاہے کہ ہندو مسلم منافرت کے ماحول میں اپنے بیانات اور الٹی سیدھی پالیسیوں کے ذریعہ آگ میں گھی ڈالاجارہاہے اور اس جھگڑے کافائدہ اٹھا کر نہایت خاموشی سے ملک کی اقتصادی حالت کوپٹری پر لانے کے بہانے ایک ایک کرکے ملک کے اثاثے کوفروخت کیاجارہا ہے۔ہمیں عادت پڑ گئی ہے یہ دیکھنے کی کہ ایک طرف سرکار نہایت زور وشور سے کوئی ایسا ایشو مارکٹ میں اچھالتی ہے جس پرکتوں کی طرح عوام ٹوٹ پڑےں اور آپس میں لڑنے لگےں اور دوسری طرف وہ سکون سے ڈیل سائن کرلیتی ہے۔ اور جب ہم ٹوٹ پھوٹ کر مرکٹ کرشانت ہو تے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ دو چار سرکاری اداروں کی نیلامی ہو گئی۔ کسی نے خوب کہاہے کہ کاربیچ کر اس پیسے سے گیرج بنانے کامطلب کیا ہے۔ لیکن یہ حکومت لگا تار یہی کر رہی ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ انڈین ایئر لائنس گھاٹے میں چلنے کی وجہ سے نیلامی پر چڑھی ہوئی ہے اسے کوئی خر یدنے کو راضی نہیں دوسری طرف نئے بجٹ میں ایئرپورٹ بنانے کے لئے پیسہ مختص کیاجارہا ہے۔ یہ سب صرف ہمارے ہی ملک میں ہوسکتاہے اور مودی جی ہی کرسکتے ہیں لیکن بولنے والے جو لوگ ہیں وہ تو ہرہرمودی اور گھرگھرمودی کر رہے ہیں ۔ حد ہوتی ہے جاہلیت کی بھی اور بھگتی کی بھی۔ ایل آئی سی بھی بکنے کو ہے اور ریل بھی ۔ یہ فائدہ ہواہے ہمارے سی اے اے اور این آرسی کے جھگڑوں کا۔ ابھی تو کامن سول کوڈ باقی ہے لیکن یاد رکھئے کہ اس کے آنے سے پہلے سرکار باقی بچے قومی اثاثوں کو بھی نیلامی پر چڑھادے گی۔
آگے آ گے دیکھئے ہوتاہے کیا
خبرگرم ہے... نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا